بِسْمِ اللہ الرَّحْمٰن الرَّحِم
IN THE NAME OF ALLAH, THE MOST BENEFICIENT, THE MOST MERCIFUL

 

for english version of this website visit WWW.BAHAIAWARENESS.COM | feedback? write to faruqsm@gmail.com 

 

عقیدہ توحید كی اہمیت و تقاضے

 

پچھلے مقالے میں انسان كے وجود میں عقیدہ كی اہمیت پر بحث كرتے ہوئے  یہ بات واضح كی گئی تھی كہ عقیدہ انسان كے وجود میں بنیاد كا كام كرتا ہے۔ اس بنیاد میں خاص طور پر تین چیزوں پر بحث رائج ہے ایك توحید  دوسرے نبوت اور تیسرے قیامت۔ آج كے اس مقالے میں اسی بات پر روشنی ڈالنا ہے كہ در اصل اس عقیدہ كے تقاضے كیا كیا ہیں۔

 

تاریخ كے مطالعہ سے یہ بات واضح ہے كہ نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب  بعثت كے بعد پہلی مرتبہ كوہ ابو قبیس سے اپنی نبوت كا اعلان كیا تھا تو سب سے پہلے اللہ كی حمد و ثنا كی، جس بات كی طرف دعوت تھی وہ ان الفاظ میں تھی۔ عِبَادَ اللہِ قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ تُفْلِحُوْا۔اللہ كے بندو (تم سب )كہو نہیں ہے كوئی خدا سوائے اللہ كے اور كامیاب ہو جاؤ) اس جملے پر لبیك كہنا در اصل مندرجہ ذیل چیزوں كی طرف اشارہ كر رہا ہے۔

 

1.      نبی كریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ عقیدہ كہ وہ اللہ كے بھیجے ہوئےنبی ہیں۔ صادق و امین ہیں۔ كیونكہ بغیر اس عقیدے كے انسان ان جملوں كو ادا ہی نہیں كرے گا۔ معلوم یہ ہوا كہ عقیدہ توحید كا اقرار دراصل نبی كریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم كی نبوت كا اقرار ہے۔

2.     كلمہ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ كا ادا كرنا حكم خداوندی ہے۔ اور اسلام كے حدود میں داخل ہونے كےلئے شرط ہے، كہ اقرار اللہ تبارك وتعالی كرنے كا مقدمہ یہ ہے كہ غیر خداؤں كا انكار كیا جائے، كیونكہ بغیر انكار كے وحدانیت كا اقرار ممكن نہیں۔

3.     اگر اس جملے كو اسكا حق جانتے ہوئے ادا كر دیا تو انشاء اللہ تم كامیاب ہو جاؤگے۔

 

حدیثوں میں یہ بات واضح طور پر بیان كی گئی ہے كہ ایمان اور مسلمان ہونے كے كئی منازل ہیں، پہلے زبان سے اقرار كہ جس كے ادا كرنے كے بعد انسان مسلمان ہوجاتا ہے اور وہ كفر كے حدود سے باہر نكل جاتا ہے اور جسمانی طور پر بھی پاك و پاكیزہ ہو جاتا ہے۔ یا دوسرے الفاظ میں قرآنی اصطلاح میں اَیُّہَا النَّاسُكے مخاطب ٍسے نكل كر یَا اَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا كا مخاطب قرار دیا جاتا ہے۔ لیكن فلاح و بہبودی كیلئے شاعر مشرق كے شعر نے صحیح ترجمانی كی ہے۔

 

یقین محكم عمل پیہم محبت فاتح عالم

جہاد زندگی میں ہیں یہ مردوں كی شمشیریں

 

دوسرت مرحلہ یقین:۔ اس بات كا یقین كہ اللہ میرا خالق ہے۔ اسكے قوانین میری بہتری كیلئے بیان كئے گئے ہیں۔ وہ ذات اقدس مجھ سے بیحد محبت كرتا ہے۔ مجھے ہر وقت نہ صرف دیكھ رہا ہے بلكہ میری بہتری كیلئے راہیں ہموار كر رہا ہے۔ وہی میرا رازق ہے۔

تیسرا مرحلہ:۔ اس یقین كے ساتھ عمل كرنا كہ ہماری زندگی كا مقصد اسكی اور صرف اسكی عبادت كرنا ہے۔  اس عبادت میں نہ عملی طور پر كسی كو شریك كرنا ہے اور نہ ہی ذہنی طور پر كسی كو شریك كرنا ۔ اعمال كو جو چیزكمزور كر دیتی ہے وہ اللہ جل جلالہ كے ساتھ كسی چیز یا كسی ذات كو شریك كرنا ہے۔

قارئین كی خدمت میں دو واقعات نقل كركے بات كو اختتام تك پہنچانا مقصد ہے۔

 

1.                  بنی اسرائیل میں ایك عابد تھا۔ جو دن میں روزہ ركھتا تھا اور رات میں عبادت كرتا تھا۔ قریب ہی ایك پیپل كا درخت تھا جسكی لوگ عبادت كرتے تھے پوجا كرتے تھے۔ایك دن یہ عابد اس خاص نیت سے ہنسلی لیكر نكلا كہ آج اس درخت كو كاٹ دوں گا یہ رہے نہ لوگ پوجا كریں گے۔ ابھی یہ گھر سے نكلا ہی تھا  كہ راستہ میں ایك شخص سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو ہوئی۔ بحث و مباحثہ ہوا نوبت یہاں تك پہونچ گئی كہ وہ شخص عابد سے كہنے لگا كہ اگر تم نے اس درخت كو كاٹنے كی كوشش كی تو میں تمہیں قتل كر دوں گا۔ دونوں میں ہاتھا پائی كا سلسلہ شروع ہوا یہ عابد اس شخص كے سینے پر سوار ہو گیا اوركہا اے شخص اگر تو مجھے نہیں چھوڑے گا تو میں پہلےتجھے قتل كروں گا ارو پھر درخت كو كانٹوں گا۔ اس شخص نے عابد سے كہا اگر تو مجھے چھوڑ دیگا تو میں تجھے روز دو سكےّ عنایت كروں گا، ایك سكہّ تو اپنے مصرف میں خرچ كرنا اور دوسرا راہ خدا میں خرچ كرنا۔ یہ سنتے ہی عابد نے اس شخص كو چھوڑ دیا۔ دوسرے دن سے اسے دو سكےّ ملنا شروع ہوگئے، ایك وہ خود كے مصرف میں لاتا تھا اور دوسرے راہ خدا میں خرچ كرتا تھا۔  كچھ دن بعد یہ سكےّ ملنا بند ہوگئے۔عابد پھر اصلحہ لیكر لیكر چلا كہ آج تو درخت كانٹ ہی دوںگا۔ پھر اسی شخص سے ملاقات ہوئی۔ گفتگو ہوئی، بحث و مباحثہ ہوا، ہاتھا پائی كی نوبت آئی۔ اس بار وہ شخص عابد كے سینے پر سوار ہوگیا اور كہنے لگا اگر تو درخت كو كانٹنے كا ارادہ ترك نہیں كرے گا تو میں تیری گردن قطع كر دوں گا۔ عابد نے اس سے وعدہ كیا كہ میں درخت نہیں كانٹوں گا لیكن تو مجھے ایك سوال كا جواب دے دے۔ كہ پہلی بار جب تو مجھے ملا تو میں جسمانی طور پر آج كی بہ نسبت كمزور تھا لیكن اس وقت میں تجھ پر سوار ہو گیا تھا لیكن آج جب كہ تیرے دئے ہوئے سكوں كو اپنے مصرف میں لاكر كچھ قوی ہوگیا ہوں تو تو میرے سینے پر سوار ہو گیا آخر اسكی وجہ كیا ہے؟ سینے پر سوار شخص نے عابد كو جواب دیا۔ جب تو پہلی بار درخت كو قطع كرنے نكلا تھا تو تیری نیت خالص تھی لہٰذا تو قوی تھا۔ آج تو جسمانی طور پر تو قوی ہے لیكن چونكہ تیری نیت میں فی سبیل اللہ كے ساتھ پیسہ بھی شامل ہے لہٰذا تو ایمانی طور پر كمزور ہو گیا ہے۔ میں شیطان ہوں اور میں نے تجھ پر تسلط پا لیا ہے۔

 

قارئین ملاحظہ فرمایا آپ نے ،جب تك عقیدہ توحید میں كسی چیز كی ملاوٹ نہیں ہوتی بھوكا انسان اتنا قوی ہوتا ہے كہ شیطان پر حاوی ہو سكتا ہے۔ اور عقیدہ توحید میں ملاوٹ پیٹ بھرے انسان پر شیطان كو  حاوی كر دیتا ہے۔ جس كی واضح مثال واقعہ كربلا میں ملتی ہے۔ كہ حسین رضی اللہ تعالی عنہ كے اصحاب تین دن كی بھوك پیاس كے باوجود اتنے قوی تھے كہ ستر بار قتل كركے اٹھانے پر بھی حسین رضی اللہ تعالی عنہ كا ساتھ چھوڑنے كو تیار نہیں تھے جبكہ یزید اور اسكے ساتھی انعام و اكرام كی لالچ میں اتنے كمزور ہوگئے تھے كہ رسول كے نواسے حضرت حسین رضی اللہ تعالی عنہ كے دہن مبارك سے نكلے ہوئے جملے بھی انہیں راہ راست پر نہ لا سكے۔

 

2.                 ایك متقی اور پرہیزگار شخص تھا، جو اس بات پر یقین بھی ركھتا تھا اوراسی كا ورد بھی كرتا تھا۔ اَلْحَمْدُ ِِللہِ رّبِّ الْعَالَمِیْنَ وَالْعَاقِبَۃُ لِلْمُتَّقِیْنَ ساری تعریفیں اللہ كیلئے اور عاقبت میں فلاح و بہبودی متقین كیلئے ہے۔ شیطان كو یہ بات بہت ناگوار گذر رہی تھی۔ كہ ساری تعریف اللہ كے لئے ہے تو ٹھیك ہے لیكن عاقبت متقین كیلئے ہے یہ بات لوگوں كی ہدایت كا ذریعہ ہے اور لوگوں كو مجھ سے دور كررہی ہے۔ لہٰذا وہ ایك دن اس متقی و پرہیزگار كے گھر پہونچا گفتگو میں یہ بات طے پائی كہ ابھی جو شخص داخل ہوگا اگر اسنے یہ كہہ دیا كہ عاقبت پیسے والوں كیلئے ہے تو میں تمہارا بایاں ہاتھ كاٹ دوں گا لیكن اگر اس نے یہ كہہ دیا كہ عاقبت متقین كیلئے ہے تو میں اے متقی وپربیزگار شخص تیرا بایاں ہاتھ كاٹ دوں گا۔ اب جو شخص گھر میں داخل ہوا اسنے كہا عاقبت پیسے والوں كیلئے ہے۔ وعدے كے مطابق متقی و پرہیزگار شخص نے اپنا بایاں ہاتھ كٹا دیا۔ لیكن اسنے اپنا ایمان اور اپنا ورد نہیں چھوڑا۔ كچھ دن بعد پھر وہ شخص حاضر ہوا اور اس متقی و پرہیزگار سے كہا كہ اب تو تیرا بایاں ہاتھ بھی كٹ گیا اب بھی تونے یہ كہنا نہیں چھوڑا؟ بحث و مباحثہ كے بعد یہ طے پایا كہ اب اگر آنے واے شخص نے یہ كہہ دیا كہ عاقبت پیسے والوں كیلئے ہے تو میں تیرا داہنا ہاتھ كاٹ ڈالوں گا۔ اس بار پھر آنے والے شخص نے وہی كہا جو پہلے شخص نے كہا تھا۔ نتیجے میں متقی  و پرہیزگار شخص كا داہنا ہاتھ بھی كٹ گیا۔ لیكن واہ رے ایمان كی طاقت اور یقین كا پیمانہ اسنے اپنا ورد نہیں چھوڑا۔ كہ پھر تیسری بار وہ شخص آیا تو اب یہ طے پایا كہ اگر آنے والے شخص نے كہدیا كہ عاقبت پیسے والوں كے لئے ہے تو میں تحھے قتل كر دوں گا۔ متقی و پرہیزگار شخص نے دنیا سے با ایمان جانے كو پسند كر لیا۔ اللہ قادر و مطلق نے اس متقی پرہیزگار  كے ایمام كا امتحان لے لیا اور اب ایك فرشتے كو بھیجا جس نے عابد كے دونوں ہاتھ دیئے اور اس شخص كا خاتمہ كیا۔

 

قارئین ملاحظہ فرمایا آپنے رسول نے جو كہا تھا قُوْلُوْا لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللہُ تُفْلِحُوْا آخركار فلاح و بہبودی زبان سے اقرار توحید كرنے والے اس پر دل سے یقین ركھ كر عمل كرنے والے كے لئے ہے۔ اسكے علاوہ مندرجہ بالا  دو واقعات سے یہ بات بلكل واضح ہے كہ شیطان كے ایمان والوں كے خلاف چلائے حانے والے حربوں میں سے یہ دو حربے كافی مضبوط ہیں۔ ایك پیسے كے ذریعہ اور دوسرے عقیدہ خدا كے ساتھ عقیدہ قیامت كے ماحصل میں شك و شبہ پیدا كرنا۔

   

نتیجہ:۔

1.                  صحیح الٰہی نمائندہ آپ كو ہمیشہ اللہ كی طرف ہدایت كرے گا۔ لہٰذا صحیح الٰہی نمائندہ كا انتخاب ہی انسان كی دنیا و آخرت كی فلاح و بہبودی كا ضامن ہے۔ اور اسكا آسان طریقہ اسكے دعوت كے انداز سے معلوم ہو جاتا ہے۔

2.                 روز اول سے شیطان ایمان كی خریداری كیلئے پیسوں كا استعمال كرتا ہے۔ چاہے رسول اكرم كو دین حق كی تبلیغ سے روكنے كیلئے ہو یا حسین رضی اللہ تعالی عنہ كے خلاف جنگ كرنے والوں كیلئے ہو یا آج كے دور میں دین اسلام سے انحراف كیلئے ہو۔

3.                 قیامت، روز جزا اور سزا كا انكار كرنے والا یا اسمیں شكوك پیدا كرنے والا الہٰی نمائندہ نہیں ہو سكتا بلكہ شیطان نمائندہ ہو سكتا ہے۔ آج كی دنیا میں بھی كچھ لوگ ایسے پائے جاتے ہیں جو قیامت اسكی سزا و جزا كا انكار كرتے ہوئے نبی كریم صلی اللہ علیہ و سلم كی ختم نبوت كا انكار كرتے ہیں اور اللہ كے علاوہ خدا بھی كسی اور كو مانتے ہیں۔ اور پھر بھی اپنے آپ كو  طریقی یافتہ دور كا جدید مذہب كا مننے والاكہتے ہیں۔ جن كا تعرف آئندہ آنے والے مقالوں میں كرایا جائیگا تاكہ ہم اپنے بچوں كے ایمان كی حفاظت كر سكیں۔

4.                 ایمان پر ثابت قدم رہتے ہوئے جان  كی بازی لگا دینا بہتر ہے اس دنیا میں بے ایمان زندہ رہنے سے۔ اس چیز كو نہ صرف خود اپنے آٴ كیلئے انتخاب كرنا چاہیے، بلكہ اپنے بچوں كو ایسے خطروں كی طرف جانے ہی نہیں دینا چاہیے۔ جسكی مثال كربلا میں ملتی ہے جب حُر نے حسین رضی اللہ تعالی عنہ سے اپنے بچے كو میدان میں جانے كی اجازت چاہی اور حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے حُر سے كہا: حُر جوان بیٹے كی لاش اٹھانا بہت مشكل كام ہے تو حُر نے جواب دیا :مولیٰ! فوج  یزید كے لوگ اشرفیوں كی تھیلی لیكر كھڑے ہیں اسكا ایمان خرید نے كیلئے میں اس خطرے كو ہرگز مول نہیں لینا چاہتا كہ خدا نخواستہ میرے مرنے كے بعد یہ لوگ میرے بچے كا ایمان اشرفیوں سے خرید لیں۔ میں دنیا كے مصائب كو جھیلنا آسان سمجھتا ہوں ساری دنیا كو قربان كردینا آسان سمجھتا ہوں لیكن اس دنیا سے خود اور اپنے بیٹے كے با ایمان جانے سے۔

 

رب كریم سے دعا ہے كہ ہماری اس كوشش كو قبول كرے اور ہمیں اور ہمارے بال بچوں كو اس دنیا سے باایمان اٹھائے۔



ˇ        اقرار کی اہمیت انکار کے بعد

ˇ        عقیدہ توحید كی اہمیت و تقاضے

ˇ        ختم نبوت : مقدمہ

ˇ        ختم نبوت  -خَتَمَ  کے معنی لغت کی رو سے

ˇ        ختم نبوت  -خاتم : قرآن کے نقطہٴ نظر سے

ˇ        ختم نبوت  -خاتمیت حضرت محمد مصطفی کے متعلق علماء اہل سنت کے مصادر سے لی گئیں احادیث

ˇ        ختم نبوت  -صحابہ کرام کا اجتماع

ˇ        ختم نبوت  -اجماع علماء اہلسنت




blog comments powered by Disqus HOME | BACK
ŠTheBahaiTimes.com